وضو کے فرائض اور سُنّتیں

وضو کے فرائض اور سُنّتیں

0
9144

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ

فرض:-

وضو میں چار فرض ہیں، انکا دھیان رکھنا بہت ہی ضروری ہے اگر ایک بھی فرض رہ گیا یا صحیح طرح سے نہیں ہوا تو وضو نہیں ہوگا اور اسکے بغیر نماز بھی نہیں ہو سکتی۔

  1. منھ دھونا یعنی ماتھے پر بال نکلنے کی جگہ سے ٹھوڑی کے نیچے تک اور ایک کان کے کنارے سے دوسرے کان کے کنارے تک پورا چہرہ اس طرح دھونا که بال برابر بھی کوئی جگہ سوکھی نہ رہ جائے، ورنہ وضو نہیں ہوگا۔
  2. کُہنیوں سمیت دونوں ہاتھوں کو دھونا۔
  3. سِرکا مسح کرنا یعنی بھیگا ہوا ہاتھ پھیرنا۔
  4. ٹخنوں سمیت دونوں پاؤ ں کا دھونا۔

 

وُضو کے فرائض سے متعلق ضروری مسائل:۔

  • کسی عُضْوْ کے دھونے کے یہ معنی ہیں کہ اس عُضْوْ کے ہرحصہ پر کم سے کم دو بوند پانی بہ جائے۔ بھیگ جانے یا تیل کی طرح پانی چُپَڑلینے یا ایک آدھ بوند بہ جانے کو دھونا نہیں کہیں گے نہ اس سے وُضو یا غسل ادا ہوتا ہے اس کا لحاظ بہت ضروری ہے لوگ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے اور نمازیں اکارت جاتی ہیں۔
  • بدن میں بعض جگہیں ایسی ہیں کہ جب تک ان کاخاص خیال نہ کیا جائے ان پر پانی نہیں بہے گا جس کی تشریح ہر عُضْوْ میں بیان کی جائے گی ۔
  • کسی جگہ َموضَعِ حَدَث پر تری پہنچنے کو مسح کہتے ہیں۔

۱۔ مونھ دھونا: شروعِ پیشانی سے (یعنی جہاں سے بال جمنے کی انتہا ہو) ٹھوڑی تک لمبائی  میں اور چوڑائی میں ایک کان سے دوسرے کان تک مونھ ہے اس حد کے اندر جِلد (skin)  کے ہر حصہ پر ایک مرتبہ پانی بہانا فرض ہے۔

  • جس کے سر کے اگلے حصہ کے بال گرگئے یا جَمے نہیں اس پر وہیں تک مونھ دھونا فرض ہے جہاں تک عادۃً بال ہوتے ہیں اور اگر عادۃً جہاں تک بال ہوتے ہیں اس سے نیچے تک کسی کے بال جمے تو ان زائد بالوں کا جڑ تک دھونا فرض ہے۔
  • مونچھوں یا بھووں یا بچی (یعنی وہ بال جو نیچے کے ہونٹ اور ٹھوڑی کے بیچ میں ہوتے ہیں۔) کے بال اتنے  گھنے ہوں کہ کھال باِلکل نہ دکھائی دے تو جِلد کا دھونا فرض نہیں بالوں کا دھونا فرض ہے اور اگر ان جگہوں کے بال گھنے نہ ہوں تو جِلد کا دھونا بھی فرض ہے۔
  • اگر مونچھیں بڑھ کر لَبوں (یعنی ہونٹوں)  کو چھپالیں تو  مونچھیں ہٹا کر ہونٹوں  کا دھونا فرض ہے چاہے مونچھیں گھنی ہوں یا چھدری۔
  • داڑھی کے بال اگر گھنے نہ ہوں تو جلد کا دھونا فرض ہے اور اگر گھنے ہوں تو گلے کی طرف دبانے سے جس قدر چہرے کے حلقے (یعنی گھیرے) میں آئیں ان کا دھونا فرض ہے اور جڑوں کا دھونا فرض نہیں اور جو حلقے سے نیچے ہوں ان کا دھونا بھی ضروری  نہیں اور اگر کچھ حصہ میں گھنے ہوں اور کچھ چَھدرے، تو جہاں گھنے ہوں وہاں بال اور جہاں چھدرے ہیں اس جگہ جلد کا دھونا فرض ہے۔
  • ہونٹوں  کا وہ حصہ جو عادۃً  ہونٹ  بند کرنے کے بعد ظاہر رہتا ہے ،اس کا دھونا فرض ہے تو اگر کوئی خوب زور سے ہونٹ  بند کرلے کہ ا س میں کاکچھ حصہ چُھپ گیا اور  اس پر پانی نہ پہنچا،  نہ کُلّی کی کہ دُھل جاتا تو وُضو نہیں  ہوا ، لیکن وہ حصہ جو عادۃً مونھ بند کرنے میں ظاہر نہیں ہوتا اس کا دھونا فرض نہیں۔
  •  رُخسار (یعنی گال) اور کان کے بیچ میں جو جگہ ہے جسے کنپٹی کہتے ہیں اس کا دھونا فرض ہے لیکن  اس حصہ میں جتنی جگہ داڑھی کے گھنے بال ہوں وہاں بالوں کا اور جہاں بال نہیں ہوں یا گھنے نہیں ہوں تو جلد کا دھونا فرض ہے۔
  • نَتھ کا سوراخ اگر بند نہ ہو تو اس میں پانی بہانا فرض ہے اگر تنگ ہو تو پانی ڈالنے میں نتھ کو حرکت دے ورنہ ضرو ر ی نہیں۔
  • آنکھوں کے ڈھیلے اور پپوٹوں کے اندرونی حصہ  کا دھونے کی کچھ ضرورت  نہیں بلکہ نہ دھونا نہیں چاہیئے کہ نقساندہ ہے۔
  • مونھ دھوتے وقت آنکھیں زور سے مِیچ لِیں جسکی وجہ سے پَلک کے ساتھ  ایک ہلکی سی لکیر جگہ   بند ہوگئی اور اس پر پانی نہیں بہا لیکن  وہ عادۃً بند کرنے سے ظاہر رہتی ہو تو وُضو ہو جائیگا مگر ایسا کرنا نہیں چاہیئے اور اگر کچھ زیادہ دُھلنے سے رہ گیا تو وُضو نہ ہو گا۔
  • آنکھ کے کوئے   پر پانی بہانا فرض ہے مگر سرمہ کا جرم کوئے یا پَلک میں رہ گیا اور وُضو کرلیا اور معلوم  نہیں  ہوا  اور نماز پڑھ لی تو حَرج نہیں نماز ہوگئی،  وُضو بھی ہو گیا اور اگر معلوم ہے تو اسے چُھڑا کر پانی بہانا ضرور ہے۔
  • پَلک کا ہر بال  پُورا دھونا فرض ہے اگر اس میں چیپڑ  وغیرہ کوئی سَخْت چیز جم گئی ہو تو  چُھڑا نا  فرض ہے۔

۲۔ہاتھ دھونا: اس حُکْم میں کہنیاں بھی داخِل ہیں۔

  • اگر کُہنیوں سے ناخن تک کوئی جگہ ذَرّہ بھر بھی دھلنے سے رہ جائے گی وُضو نہیں ہو گا۔
  • ہر قسم کے جائز ،  ناجائز گہنے ،  چَھلّے،  انگوٹھیاں،  پُہنچیاں (ایک زیور جو کلائی میں پہنا جاتا ہے) ، کنگن،  کانچ،  لاکھ وغیرہ کی چوڑیاں،  ریشم کے لچھّے وغیرہ اگر اتنے تنگ ہوں کہ نیچے پانی نہ بہے  تو اُتار کر دھونا فرض ہے اور اگرصرف ہِلا کر دھونے سے پانی بہ جاتا ہو تو حرکت دینا ضرور ی ہے اور اگر ڈِھیلے ہوں کہ بے ہلائے بھی نیچے پانی بہ جائے گا تو کچھ ضرور ی نہیں۔
  • ہاتھوں کی آٹھوں گھائیاں  ، اُنگلیوں کی کروٹیں،  ناخنوں کے اندر جو جگہ خالی ہے،  کلائی کا ہر بال جڑ سے نوک تک ان سب پر پانی بہ جانا ضروری ہے اگر کچھ بھی رہ گیا یا بالوں کی جڑوں پر پانی بہ گیا کسی ایک بال کی نوک پر نہ بہا  تو وُضو نہیں  ہوا مگر ناخنوں کے اندر کا میل معاف ہے۔
  • بجائے پانچ کے چھ انگلیاں ہیں تو سب کا دھونا فرض ہے اور اگر ایک مُونڈھے پر دو ہاتھ نکلے تو جو پُورا ہے اس کا دھونا فرض ہے اوراس دوسرے کادھونا فرض نہیں مستحب ہے مگر اس کا وہ حصہ کہ اس ہاتھ کے ایسے حصے سے جڑا ہے جسکا دھونا فرض ہوتا ہے  تو  اتنے کا دھونا فرض ہے۔

۳۔ سرکا مسح کرنا:

  • چوتھائی سر کا مسح فرض ہے۔
  • مسح کرنے کے لیے ہاتھ تَر ہونا چاہیئے، خواہ ہاتھ میں تَری اعضا کے دھونے کے بعد رہ گئی ہو یا نئے پانی سے ہاتھ تر کر لیا ہو۔
  • کِسی عُضو کے مسح کے بعد جو ہاتھ میں تَری باقی رہ جائے گی وہ دوسرے عُضْوْ کے مسح کے لیے کافی نہیں ہوگی۔
  • سر پر بال نہ ہوں تو جِلد کی چوتھائی اور جو بال ہوں تو خاص سر کے بالوں کی چَوتھائی کا مسح فرض ہے اور سر کا مسح اسی کو کہتے ہیں۔
  • عمامے، ٹوپی، دُوپٹے پر مسح کافی نہیں۔ لیکن اگر ٹوپی،  دُوپٹا  اتنا باریک ہو کہ تَری پُھوٹ کر چوتھائی سر کو تَر کردے تو مسح ہو جائے گا۔
  • سر سے جو بال لٹک رہے ہوں ان پر مسح کرنے سے مسح نہیں ہوگا۔

۴۔پاؤں کو گٹوں  سمیت ایک دفعہ دھونا:

  • چَھلّے اور پاؤں کے گہنوں کا وہی حُکْم ہے جو اوپر ہاتھ کے گہنوں کے بارے میں  بیان کیا گیا۔ 
  • بعض لوگ کسی بیماری کی وجہ سے پاؤں کے اَنگوٹھوں میں اس قدر کھینچ کر تاگا باندھ دیتے ہیں کہ پانی کا بہنا درکنار تاگے کے نیچے تر بھی نہیں ہوتا ان کو اس سے بچنا لازم ہے کہ اس صورت میں وُضو نہیں ہوتا۔
  • گھائیاں اور اُنگلیوں کی کروَٹیں، تلوے، ایڑیاں، کونچیں(یعنی ایڑیوں کے اوپر موٹے پٹھے) ، سب کا دھونا فرض ہے۔
  • جن اَعضا کا دھونا فرض ہے ان پر پانی بہ جانا شرط ہے یہ ضرور نہیں کہ قَصْداًپانی بہائے اگر بِلاقَصْد و اِختیار بھی ان پر پانی بہ جائے (مثلاً بارش ہوئی  اور اَعضائے وُضو کے ہر حصہ سے دو ۔دو قطرے بارش کے پانی  کے بہ گئے وہ اعضا دُھل گئے اور سر کا چوتھائی حصہ نم ہو گیایا کسی تالاب میں گِر پڑا اور اعضائے وُضو پر پانی گزر گیاوُضو ہو گیا)۔
  • جس چیز کی آدمی کو عُموماً یا خُصوصاً ضرورت پڑتی رہتی ہے اور اس کی اِحتیاط رکھنی مشکل  ہو،  ناخنوں کے اندر یا  اُوپر یا اور کسی دھونے کی جگہ پر یہ لگے رہ جاتے ہوں  تو چاہے یہ چیز  جرم دارہو، چاہے  اس کے نیچے پانی نہ پہنچے،  چاہے  سَخْت چیز ہو وُضو ہو جائے گا ، جیسے پکانے، گوندھنے والوں کے لیے آٹا،  رنگریز کے لیے رنگ کا جرم، عورتوں کے لیے مہندی کا جرم،  لکھنے والوں کے لیے روشنائی کا جرم، مزدور کے لیے گارا مٹی، عام لوگوں کے لیے کوئے یا پلک میں سُرمہ کا جرم، اسی طرح بدن کا میل، مٹی، غبار، مکھی، مچھر کی بیٹ وغیرہا۔
  • کسی جگہ چھالا تھا اور وہ سوکھ گیا مگراس کی کھال الگ  نہیں  ہوئی تو کھال الگ  کر کے پانی بہانا ضروری نہیں بلکہ اسی چھالے کی کھال پر پانی بہالینا کافی ہے۔ پھر اس کو الگ  کر دیا تو اب بھی اس پر پانی بہانا ضروری نہیں۔ 
  • مچھلی کی  سیلن  اعضائے وُضو پر چِپکارہ گیا وُضو نہ ہو گا کہ پانی اس کے نیچے نہ بہے گا۔

نوٹ:۔ وضو کے فرض ادا کرنے سے وضو تو ہو جائیگا پر ثواب تمام سُنّتوں کے ساتھ ادا کرنے پر ہی ملتا ہے لہٰذا سُنّتوں کے بارے میں بھی پوری جانکاری ہونا ضروری ہے۔

سُنّتیں:۔

  • نیت کرنا یعنی اللّٰہ تعالیٰ  کا  حکم ماننے کی نیت سے وضو کرنا۔
  • بسم اللّٰہ سے وضو شروع کرنا۔
  • دونوں ہاتھوں کو گٹوں تک تین تین بار دھونا۔ پہلے دایاں اور پھر بایاں ہاتھ دھونا۔
  • دانتوں میں مسواک کرنا۔ (کم سے کم تین بار داہنے بائیں اوپر نیچے کے دانتوں پر)
  • داہنے ہاتھ سے تین بار کُلّی کرنا۔ (روزہ دار نہ ہو تو  غرارہ بھی کریں)
  • داہنے ہاتھ سے تین بار ناک میں پانی چڑھانا۔
  • بائیں ہاتھ سے ناک صاف کرنا۔
  • داڑھی کا خلال کرنا۔ یعنی انگلیوں کو گلے کی طرف سے داڑھی میں ڈال کر ایسے پھیرنا جیسے کنگھا کرتے ہیں۔
  • ہاتھ پاؤں کی انگلیوں کا خلال کرنا۔
  • وضو میں دھلنے والے ہر حِصّے کو تین بار دھونا۔
  • پورے سِر کا مسح کرنا۔
  • کانوں کا مسح کرنا۔
  • ترتیب سے وضو کرنا۔
  • داڑھی کے جو بال منھ کے دائرے سے باہر ہیں انکا مسح کرنا۔
  • وضو میں دھلنے والے حِصّوں کو پے در پے دھونا یعنی ایک حِصّے کے سوکھنے سے پہلے دوسرے کو دھونا۔
  • ہر مکروہ کام سے بچنا۔

NO COMMENTS