اسلام سیکھیں

اسلام سیکھیں

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ

اللّٰہ تعالٰی کے نام سے شروع کرتا ہوں جو بہت مہربان اور رحم فرمانے والا ہے. سب تعریفیں سارے جہانوں کے پالنے والے کے لئے ہیں، اتنی تعریفیں جو اسکی نعمتوں کے برابر ہوں اور درود و سلام ہو اس کے رسول حضرت مُحمّدگ پر۔ دنیا اور آخرت کی بھلائی ہو ان لوگوں کے لئے جو اپنی زندگی کو حضرت مُحمّدگ اور آپکی آل و اصحاب کی سُنّتوں سے سنوارتے ہیں.

اسلامی بھائیوں اور بہنوں! اللّٰہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہم مسلمان ہیں لیکن کیا ہمیں یہ معلوم ہے کہ ایک مسلمان ہونے کے ناتے ہماری کیا  ذمہ داریاں  ہیں؟  اللّٰہ تعالٰی ہم سے کیا چاہتا ہے؟

ڈاکٹر اقبال کہتے ہیں.

یوں تو سیّد بھی ہو،  مرزا بھی ہو،  افغان بھی ہو

تم  سبھی  کچھ  ہو،  بتاؤ   کہ مسلمان  بھی  ہو

یہ شعر آج کل کے ماحول کے مطابق بالکل صحیح ہے. ہم اپنے آپ کو مسلمان تو کہتے ہیں اور یہ بتانے میں بہت فخر  محسوس کرتے ہیں کہ میں سید ہوں،  میں پٹھان ہوں،  میں شیخ  ہوں  وغیرہ –وغیرہ  لیکن  اسلام کی  روح  ہمارے  اندر  سے ختم  ہوتی جا  رہی  ہے. آج ہمارے اندر طرح طرح کی برائیاں اور عیب پیدا ہوتے جا رہے ہیں. ہمارے کردار کھوکھلے ہوتے جا رہے ہیں. ہم جھوٹ،  چوری،  دھوکہ،  شراب نوشی،  نشہ خوری،  بے حیائی  جیسی برائیوں  کی  دلدل  میں پھنستے  جا  رہے  ہیں.

ذرا غور سے سوچئے کہ اللّٰہ تعالٰی کے ہم پر کتنے احسان ہیں

  • سب سے پہلا  احسان  تو  یہ کہ اس  نے ہمیں  انسان  بنایا  اور  اپنی  ساری مخلوق میں سب سے بہتر  بنایا  اور "اشرف المخلوقات" کہہ کر پکارا۔
  • دوسرا  اس  سے بھی بڑا  احسان یہ کہ اس نے ہمیں  اپنا  ماننے  والا  اور  اپنی عبادت کرنے  والا  بنا یا۔
  • تیسرا سب سے بڑھ کر احسان اور کرم یہ ہے کہ اپنے سب سے پیارے نبی حضرتمُحمّدگ  کا  امتی  بنایا  اور سب سے بہترین  امت قرار  دیا  یعنی  وہ  امت جس میں  شامل ہونے کی انبیاء کِرام  نے بھی  دعائیں کیں۔.

ان نعمتو ں کے لئے ہم  اس  رب  کا جتنا بھی شکر  ادا  کریں کم  ہے۔ ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا  چاہیے کہ ہمیں  ایک دن مرنا  ہے، قبر میں جانا ہے۔ جہاں ہمارے ساتھ کوئی بھی نہیں جائے گا۔       یہ سب چیزیں جن سے ہم بہت زیادہ محبت کرتے ہیں جیسے ماں،  باپ، اولاد،  بیوی،  رشتہ دار،  دوست،  دولت،  عزت،  شہرت، حُسن،  طاقت سب یہیں رہ جائیں گے۔ وہاں  ہمارے  ساتھ کوئی جائے  گا  تو صرف  ہمارے  اعمال۔   اعمال  اچھے  ہوئے  تو  قبر میں  ہمارا  ساتھ  دیں گے،  وہاں کی تکلیف،  پریشانی  اور  وحشت سے ہمیں چھٹکارا  دلائینگے اور  اگر  بُرے  ہوئے  تو  نہ صرف تکلیف  اور  پریشانی  کو  بڑھائینگے  بلکہ سانپ بِچھو  بن کر ستائیں گے۔

قیامت کے بعد ہمیں حشر کے میدان میں جمع کیا جائے گا جہاں کی گرمی  اور وحشت کا  کوئی  بیان نہیں کیا جا سکتا۔ وہاں سب لوگ ایک دوسرے کو پہچانیگے  تو ضرور مگر کوئی کسی کی بات تک نہیں سُنے  گا  یہاں تک کہ انبیاء  اور  رسول بھی کسی کی مدد نہیں کرینگے۔ اُس وقت صرف ہمارے پیارے نبی مُحمّدگ لوگوں کی سفارش کے لئے آگے  آئیں گے اور حساب و کتاب کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ جن کے اعمال بہتر ہوئے  اور  اللّٰہ کا فضل و کرم بھی  ہو گیا  تو  انہیں  جنت  میں بھیج  دیا  جائے  گا  لیکن  کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے کہ جن کو ان کے بُرے اعمال کی وجہ سے سزائیں   سنائی جائیں گی،  اور جہنم میں ڈالا جائے گا. اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔

آپ خود ہی سوچئے دنیا کی آگ سے ہماری ایک انگلی بھی جل جائے تو برداشت نہیں کر پاتے تو پھر دوزخ کی آگ کو کیسے برداشت کریں گے، بس ہمیں یہی کوشش کرتے رہنا چاہئے کہ ہمارے اعمال بہتر رہیں  اور  اللّٰہ کے غضب سے بچے رہیں. لہٰذا  اب ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ وہ کون سے کام ہیں جن سے اس کا غضب نازل ہوتا ہے اور کون سے کاموں سے فضل و کرم،  یعنی ہمیں دین کی معلومات حاصل کرنا چاہئے جس سے ہماری  دنیا  اور آخرت بہتر ہو۔.

علم دین اور اس کی ضرورت

دین ِ  اسلام  کا  راستہ علم کی وادیوں سے ہوکر گزرتا ہے۔ کسی بھی مذہب میں علم کی اتنی اہمیت نہیں بتائی گئی جتنی اسلام میں۔   قرآن  پاک  میں تقریبا 700ً   جگہ پر علم کے بارے میں کچھ  نہ  کچھ  ذکر  ہے. سب سے خاص بات یہ ہے کہ قرآن پاک کا جو سب سے پہلا لفظ نازل   ہوا  وہ  "اقرا" تھا جس کا مطلب ہے  "پڑھیے".

اللّٰہ تعالٰی قرآن پاک میں فرماتا ہے۔

قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیۡنَ یَعْلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعْلَمُوۡنَ

(آپ کہئے کہ علم والے اور وہ لوگ جو علم نہیں رکھتے کہیں برابر ہوتے ہیں.)

(سورۃ  الذمر ۔39،  آیت۔ 9)

قرآن پاک میں ہی ایک اور جگہ فرمایا گیا ہے۔

یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمْ ۙ وَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ

(اللّٰہ تعالٰی تم میں سے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم عطا ہوا درجے بلند  کرے گا)

(سورۃ المجادلہ ۔(58)،  آیت۔ 11)

قرآن  پاک  کی  ان آیات سے علم کی  اہمیت  کا  اچھی طرح  اندازہ  لگایا  جا سکتا  ہے۔   بہت سی  احادیث بھی علم کی اہمیت کے بارے میں ہیں۔

  • جو علم حاصل کرنے کے لئے سفر کرے اللّٰہ تعالٰی اسے جنت کے راستے پر چلتا ہےـ

(مسلم شریف)

  • جس شخص کو اس حالت میں موت آئے کہ وہ علم کو زندہ  رکھنے کے لئے علم حاصل کر  رہا  تھا  تو  جنت  میں  اس کے  اور نبیوں  کے درمیان صرف ایک  درجے  کا  فرق  ہو گا.

(دارمی)

  • علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔

 (ابن ماجہ)

ان احادیث کی روشنی میں ہم کہ سکتے ہیں کہ اسلام میں علم کا  درجہ بہت  اونچا  ہے یہاں تک کہ اسے  ہر مسلمان کے لئے ضروری قرار  دیا گیا ہے۔.

علم کی اہمیت کے بارے میں کچھ قول

  • حضرت علی ؓ فرماتے  ہیں کہ۔  علم مال سے بہتر ہے کیونکہ علم تیری حفاظت کرتا ہے اور تو  مال کی،  مال خرچ کرنے سے ختم ہو جاتا  ہے مگر علم خرچ کرنے سے بڑھتا ہے،  علم حاکم ہے اور مال محکوم۔   مالدار  چل  بسے،  مگر علم والے  زندہ ہیں  اور  رہتی  دنیا  تک زندہ  رہیں گے،  ان کے جسم مٹ گئے مگر ان کے کارنامے کبھی مٹنے والے نہیں۔
  • حضرت معاذ ابن جبل ؓ فرماتے  ہیں کہ۔ علم نور   ہے،  اس سے اندھیرا  دور ہوتا  ہے. علم  ہی سے اللّٰہ کی اطاعت  اور عبادت کا حق ادا ہوتا ہے۔   اس سے ہی حرام  اور حلال کا صحیح پتہ لگتا  ہے۔  خوش قسمت لوگوں کے دل ہی علم کو قبول کرتے ہیں،  بدقسمت اس سے محروم رہتے ہیں۔
  • امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ۔ علم کی وجہ سے ہی  انسان جانوروں  سے بہتر ہوتا ہے. یہ وہ نور ہے جس کی روشنی میں  ہر  چیز کی حقیقت کو پہچانا جا سکتا ہے.

علم کے بارے میں اتنا جان لینے کے بعد  اب  ہمارے لئے  یہ جاننا  ضروری ہے کہ وہ کون سا علم ہے جو ایمان والوں کے درجے بلند کرتا ہے اور جسے حاصل کرنا  ہر مسلمان پر فرض ہے.

حضرت مُحمّد گ فرماتے ہیں کہ-

  • اللّٰہ جس کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دے دیتا ہے اور ہدایت دے دیتا ہے.

 (بخاری، مسلم)

اس حدیث پاک سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ دین ہی کا علم ہے جس کی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ مسلمان کو بھلائی عطا کرتا ہے لیکن یہاں پر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ دین کا علم صرف نماز،  روزہ  یا  عبادتوں کا  ہی علم نہیں  ہے بلکہ اس میں وہ  معاملات بھی شامل ہیں جو ایک مسلمان کو دنیا میں رہ کر کرنے ہیں کیونکہ قرآن کے مطابق دنیا آخرت کی کھیتی ہے،  لہٰذا ہمیں علم سے یہ بھی سیکھنا ضروری ہے کہ دنیا کے کون سے کام کرنا  جائز  ہیں اور  ان کے کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے.

علم حاصل کرنے کا اصل مقصد-

  • اللّٰہ تعالٰی کو پہچاننا۔
  • اسکی بڑائی اور عظمت کو اپنے دلوں دماغ میں اچھی طرح بسانا۔
  • ایمان کے لیے ضروری تمام عقائد کا جاننا۔
  • دنیا و  آخرت کے معاملات کی معلومات حاصل کرنا۔
  • بری عادات سے بچنا۔
  • اور اچھے  اخلاق  اپنے  اندر  پیدا کرنا.

اس کا فائدہ ہمیں صرف اس دنیا میں ہی نہیں بلکہ آخرت میں بھی ملتا ہے.

حضرت مُحمّد گ فرماتے ہیں کہ۔

جب ابن آدم  مر جاتا ہے تو  اس کے عمل کا رشتہ کٹ جاتا  ہے مگر تین چیزوں سے الگ نہیں ہوتا، -

  • ایک اس علم سے جس سے دوسروں کو فائدہ ہو،
  • دوسرا صدقئہ جاریہ سے،
  • تیسرا نیک  اولا د جو  اس کے لئے خیر کی دعا کرے.

(مسلم شریف)

لیکن آج کل علم  دین سیکھنے کا  رجحان بالکل ختم  ہو گیا  ہے،  ہم سوچتے ہیں کہ علم  دین حاصل کرنا  تو صرف ان کے لئے ضروری ہے جو مولوی یا  مفتی  بننا  چاہتے ہیں،  ہم تو  بس نماز  اور تھوڑا  بہت قرآنِ پاک سیکھ لیں وہ  ہی کافی  ہے جبکہ آپ گ کا  تو  فرمان ہے کہ۔

  • جو تو جاکر علم کا کوئی باب سیکھے، یہ سو رکعت نماز (نفل) پڑھنے سے بہتر ہے۔

 (ابن ماجہ)

یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ آخرت میں حساب و کتاب کے وقت دنیا میں کی ہوئی کسی غلطی کا کوئی بہانہ قبول نہیں کیا جائے گا. مثال کے طور پر کوئی تاجر (Businessman) اس طریقے  پر  یا کسی  ایسی  چیز کی تجارت کرے  جو  اسلام  میں حرام ہے،  اور اس کی کمائی کو حرام بنا لے اور پھر آخرت میں بہانہ کرے تو اس کا کوئی بہانہ قبول نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے کہا جائے گا کہ تمہیں  پہلے ہی بتا    دیا تھا کہ علم حاصل کرنا فرض ہے. کیا  یہ ممکن ہے کہ تمہیں تیرنا نہیں آتا  ہو اور  دریا  میں چھلانگ لگا کر  یہ  امید کرو  کہ بچ  جاؤ گے.

لہٰذا  اگر  ہم آخرت  کی بھلائی  چاہتے ہیں  اور  اللّٰہ کے غضب سے بچے  رہنا  چاہتے  ہیں تو  علم دین  حاصل کرکے اس کی روشنی میں اپنے سارے دنیاوی کاموں کو انجام دیں۔