نبوت کے بارے میں عقیدہ

نبوت کے بارے میں عقیدہ

0
557

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ

مسلمان کے لئے جس طرح  اللّٰہ   کی ذات اور صفات کا جاننا ضروری ہے  اسی طرح  یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ نبی کے لئے کیا جائز  ہے،  کیا  واجب اور کیا محال ہے کیونکہ واجب  کا  انکار کرنا  اور محال کا  اقرار کرنا کفر کی  وجہ  ہے۔  ایسا  نہ ہو کہ  آدمی  نادانی سے کوئی  ایسی بات زبان سے نکال دے  اور  ایمان سے باہر ہو جائے۔

  • نبی اس بشر  کو  کہتے  ہیں جسے  اللّٰہ تعالیٰ   لوگوں کی ہدایت  کے  لئے بھیجتا ہے  اور  ان پر  اپنے  پیغام بھیجتا  ہے،  یہ  پیغام کبھی تو فرشتوں کے ذریعے اور کبھی بغیر ذریعے  کے بھیجتا  ہے جسکو  وحی کہتے ہیں۔
  • رسول بشر ہی نہیں ہوتے بلکہ فرشتے بھی  رسول ہوتے ہیں۔
  • انبیاء ے سب  بشر  تھے  اور مرد  تھے۔ کوئی عورت کبھی نبی نہیں ہوئی اور نہ ہی کوئی  جِن۔
  • نبیوں کا بھیجنا  اللّٰہ تعالیٰ   پر لازم نہیں لیکن اسنے  اپنے کرم سے لوگوں کی ہدایت کے لئے نبی بھیجے۔
  • نبی ہونے کے  لئے  اس  پر وحی نازل ہونا  ضروری  ہے  یہ وحی چاہے فرشتے  کے  ذریعے ہو  یا  بغیر کسی واسطے اور ذریعے کے ہو۔
  • وحی اللّٰہ تعالیٰ  کے وہ  خاص  پیغام  ہوتے  ہیں  جو صرف نبیوں  کے لئے ہوتے ہیں۔ نبی  کے علاوہ کسی اور  کے لئے  وحی  کا  ماننا  کفر  ہے۔
  • نبیوں کو خواب میں بھی  جو  چیز  بتائی جائے  وہ  وحی ہے۔ نبی کا  خواب کبھی جھوٹا نہہیں ہو سکتا  ایسا  گمان کرنا بھی جائز نہیں۔
  • نبوّت کو عبادت یا محنت  کے ذریعے سے حاصل نہیں کیا  جا  سکتا  بلکہ  اللّٰہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے  اپنے کرم  سے چن لیتا ہے لیکن  چنتا  اسی کو ہے کہ جسکو  اس عظیم  اور بلند مرتبہ  کے  لائق  بناتا  ہے۔
  • نبی یہ مرتبہ حاصل کرنے سے پہلے بھی تمام  بُرے  اخلاق  اور  عادتوں  سے  پاک  اور صاف ہوتا ہے۔  وہ  ولایت کے تمام  درجے طے کر چکا ہوتا  ہے۔
  • وہ اپنے  خاندان،  عادتوں  و  اخلاق، جسم،  باتوں  اور  اپنے  سارے  کاموں میں ہر ایسی بات سے پاک ہوتا ہے جن سے لوگوں کو نفرت ہو۔
  • نبیوں عقل اور علم بھی سب سے زیادہ دیا جاتا ہے۔

اللّٰہ تعالیٰ  قرآن میں فرماتا ہے۔

اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیۡثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ

(اللّٰہ خوب جانتا  ہے جہاں  اپنی  رسالت  رکھے)

(سورۃ الانعام آیت۔  124)

ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیۡمِ

(یہ  اللّٰہ کا فضل ہے  جسے چاہے  دے  اور  اللّٰہ  بڑے فضل  والا ہے۔)

(سورۃ  الحدید۔  آیت۔ 21)

  • اگر کوئی یہ مانے کہ  آدمی اپنی کوشش  اور محنت سے نبوّت تک پہنچ  سکتا  ہے یا  یہ سمجھے کہ  نبی سے نبوّت کا  زوال یعنی ختم ہونا جائز ہے  وہ  کافر ہے۔
  • نبی کا معصوم ہونا  ضروری ہے  اسی طرح  فرشتے بھی معصوم  ہیں۔ نبیوں اور فرشتوں  کے علاوہ  کوئی معصوم نہیں۔
  • معصوم وہ ہیں جن کی  اللّٰہ تعالیٰ  گناہوں سے حفاظت کرتا ہے۔ شریعت کا فیصلہ ہے کہ ان سے گناہ  کا  ہونا محال اور ناممکن ہے۔  اللّٰہ تعالیٰ  اماموں  اور  بڑے  بڑے  ولیوں کو بھی  گناہوں سے بچاتا ہے مگر شریعت کی روشنی میں ان سے گناہ  کا  ہو جانا  ناممکن نہیں۔
  • انبیاء ے  شرک سے، کفر  سے  اور  ہر  ایسی  چیز سے پاک ہیں  جس  سے لوگوں کو  نفرت  ہو  جیسے جھوٹ، دھوکے بازی  اور  جہالت  وغیرہ  بری  عادتوں  اور  کبیرہ  و  صغیرہ  گناہوں  کے  ارادے  سے بھی۔ ایسی بیماریاں جن سے نفرت ہوتی ہے جیسے کوڑھ،  چرک  اور  برس  وغیرہ سے بھی نبی  کے جسم محفوظ رہتے ہیں۔
  • اللّٰہ تعالیٰ نے نبیوں کو غیب کی خبریں دیں۔  یہاں تک کہ  زمین  اور آسمان  کا  ہر ذرہ  ہر  نبی  کے سامنے ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کو کتنا علم دیا ہوگا  یہ  اللّٰہ  اور  اسکے نبی بہتر  جانتے  ہیں،  ہماری یہ حیثیت یا مجال نہیں کہ اس  پر اپنی زبان کھولیں ۔ ایک بات اور دھیان میں رکھنی ضروری ہے کہ علم غیب  ذاتی صرف  اللّٰہ  ہی کو ہے  اور نبیوں  کا علم غیب عطائی یعنی  اللّٰہ  تعالیٰ  کے دینے سے حاصل ہوتا  ہے۔
  • انبیاء ے  غیب کی  خبریں  دینے  کے  لئے  ہی  آتے ہیں کیونکہ دوزخ،  جنت،  قیامت،  حشر،  نشر  اور عذاب،  ثواب سب غیب ہیں۔ نبیوں کا  تو  منصب  ہی  یہ ہے کہ وہ،  وہ باتیں  بتائیں جن تک عقل اور حواس کی بھی پہنچ  نہ ہو سکے اور  اسی کا نام غیب ہے۔
  • انبیاء ِکرام تمام مخلوق، یہاں تک کہ رُسُلِ ملائکہ  (رسول فرشتوں) سے بھی افضل ہیں  اور  ”ولی“  کتنا  ہی  بڑے  مرتبہ  اور  درجہ والا  ہو کسی نبی  کے  برابر نہیں ہو سکتا۔
  • جو کوئی اللّٰہ کی مخلوق میں سے غیر نبی کو نبی سے  اونچا  یا  نبی  کے  برابر  بتائے وہ  کافر ہے۔
  • نبی کی تعظیم فرض ہے بلکہ  تمام فرضوں کی  اصل  ہے۔ یہاں  تک  کہ اگر کوئی نبی کی تھوڑی سی بھی توہین کرے وہ  کافر ہے۔
  • حضرت آدم ے کو اللّٰہ تعالیٰ  نے بغیر ماں باپ کے مٹی سے  پیدا  کیا   اور اپنا  خلیفہ  بنایا  اور تمام چیزوں کا علم دیا۔
  • فرشتوں کو اللّٰہ نے حکم دیا  کہ حضرت آدم ے کو سجدہ  کریں۔ سبھی نے سجدہ  کیا  لیکن  شیطان  جو  جنّات میں سے تھا  اور بہت  بڑا  عابد  اور  زاحد ہونے کی وجہ سے اسکی گنتی فرشتوں میں ہوتی تھی اسنے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا  اسی لئے  وہ  ہمیشہ  کے لئے  مردود  ہو گیا۔
  • حضرت آدم ےسے  ہمارے حضور سیّدِعالم حضرت مُحمّد گ تک  اللّٰہ تعالیٰ  نے  بہت  سے نبی بھیجے،  کچھ نبیوں کا  ذکر  قرآن شریف میں کھلے طور پر  آیا  ہے  اور کچھ  کا  نہیں۔
  • حضرت آدمے سے پہلے کوئی  انسان نہیں  تھا  بلکہ سب  انسان حضرت آدم ے کی  ہی  اولاد  ہیں۔  اسی لئے  انسان  کو آدمی  کہتے  ہیں۔
  • نبیوں کی تعداد مقرر کرنا  جائز نہیں کیونکہ اسکے بارے میں لوگوں کی  رائے  الگ الگ  ہے۔ تعداد مقرر کرکے  اس تعداد  پر  ایمان رکھنے سے یہ خرابی  لازم  آئیگی کہ اگر جتنے  نبی  آئے  ان  سے  ہماری گنتی کم ہوئی تو جو نبی تھے انکو ہم نے نبی  نہیں مانا  اور  اگر جتنے نبی آئے  ان  سے ہماری گنتی  زیادہ  ہوئی  تو  جو نبی نہیں تھے  انکو ہم نے نبی مان لیا۔ یہ دونوں باتیں اسلئے ٹھیک نہیں کیونکہ نبی کا  نبی نہ ماننا یا  ایسے کو نبی  مان  لینا  جو نبی  نہ ہو کفر ہے۔ اسلئے یہ عقیدہ  رکھنا چاہئیے کہ  ہر نبی  پر  ہمارا  ایمان  ہے۔
  • نبیوں کے  الگ الگ  درجہ  ہیں،  کچھ نبی  کچھ پر  فضیلت  رکھتے  ہیں۔ سب  سے  افضل  ہمارے حضور سیّدِ عالم حضرت مُحمّد گ ہیں۔  ہمارے حضور گ کے  بعد سب سے  بڑا  مرتبہ حضرت  ابراہیم خلیل اللّٰہ ے کا  ہے  پھر حضرت موسٰی ے،  پھر حضرت عیسٰیے اور  پھر حضرت نوح ے کا  درجہ ہے۔  ان  پانچ نبیوں کو  مرسلین اولوالعزم  (بلند و بالا عزت ، عظمت اور حوصلہ والے) کہتے ہیں  اور  یہ نبی باقی تمام نبیوں  رسولوں،  انسان،  فرشتے،  جن  اور  اللّٰہ کی تمام مخلوق سے افضل ہیں۔
  • جس طرح حضور گ تمام  رسولوں  کے سردار  اور  سب  سے  افضل  ہیں  اسی طرح  انکی  امّت بھی  انہیں  کے صدقہ  اور طفیل میں تمام  امّتوں  سے افضل ہے۔
  • سارے نبی اللّٰہ تعالیٰ  کی بارگاہ  میں عزت  والے ہیں۔  ان کےبارے میں کوئی  توہین  والا  یا  بے ادبی  کا  لفظ  جو انکی شان ، مرتبہ اور عزت کو کم کرتا ہو،  استعمال کرنا   کفر ہے۔
  • معجزہ نبی کے لئے خاص ہے۔ کسی نبی سے اگر اسے نبوّت ملنے کے بعد عادت کے خلاف کوئی کام ظاہر ہو تو اسے معجزہ کہتے ہیں۔
  • انۢبیاء ِکرام اپنی اپنی  قبروں میں اسی طرح حقیقی  زندگی  کے ساتھ زندہ ہیں  جیسے دنیا  میں  تھے۔  اللّٰہ تعالیٰ  کا فرمان ہے۔ہر نفس کو موت  کا  مزا  چکھنا  ہے(قرآن)۔   اسکے  مطابق نبیوں  پر ایک  آن کے لئے موت آئی،  پھر اسی طرح  زندہ  ہو گئے  جیسے  پہلے تھے۔  مثال سے اس طرح سمجھیں جیسے چاند پر بادل کا تکڑا  آیا  اور  چاند چھپ گیا  پھر جب وہ ٹکڑا  ہٹا چاند  پہلے کی طرح چمکنے  لگا۔
  • انۢبیاء ِکرام سے جو لغزشیں ہوئیں  انکا  ذکر  قرآن شریف  اور حدیث شریف  کی  روایت  کے  علاوہ  بہت سخت حرام ہے ہماری کیا مجال کہ ہم انکے بارے میں زبان کھولیں۔ انکے وہ کام جنکو لغزش کہا گیا ہے اس میں اللّٰہ تعالیٰ  کی حکمت اور مصلحت شامل ہیں  اور  ان  سے بہت سے فائدے  اور برکتیں حاصل ہوتی ہیں۔ حضرت آدم ے کی  ایک لغزش کو دیکھیئے کہ اس سے کتنے فائدے ہیں۔  اگر وہ  جنت  سے نہ  اترتے  تو  دنیا  آباد  نہ ہوتی،  کتابیں نہ اترتیں، نبی اور رسول نہ آتے،  آدمی  نہ  پیدا  ہوتے،  آدمیوں کی ضرورت کی لاکھوں چیزیں  نہ پیدا  کی جاتیں،  جہاد  نہ ہوتے اور کروڑوں فائدے کی وہ چیزیں جو حضرت آدم ے کی لغزش کے نتیجے میں پیدا کی گئیں انکا دروازہ بند رہتا۔

ہمارے نبی حضرت مُحمّدگ  کے بارے  میں   کچھ  خاص  باتیں۔

 

  • سارے نبیوں کو کسی ایک خاص قوم یا جگہ کے لئے بھیجا گیا لیکن  ہمارے  نبی حضرت مُحمّد گکو تمام عالم اور مخلوق یعنی  انسان، جن،  فرشتے  اور حیوانات (جانور) وغیرہ  سب کے لئے بھیجا  گیا۔ جس طرح ہر انسان پر حضور کی اطاعت (حکم ماننا) فرض ہے اسی طرح ہر مخلوق پر فرض ہے۔
  • ہمارے نبی حضرت مُحمّد گ سارے عالم کے لئے رحمت ہیں اور مسلمانوں پر تو بہت ہی مہربان ہیں۔
  • ہمارے نبی حضرت مُحمّد گ خاتم النبیین ہیں۔  اللّٰہ تعالیٰ نے نبوّت کا سلسلہ حضورگ پر ختم کر  دیا  یعنی آپکے علانِ نبوّت  کے  بعد  سے کوئی نبی نہیں  ہو سکتا۔
  • ہمارے نبی حضرت مُحمّد گ جیسا کوئی دوسرا ناممکن ہے۔ کسی دوسرے کو آپ گ جیسا بتانا گمراہی ہے۔
  • آپ گکے آنے کے بعد صرف آپکی شریعت کو ماننا لازم قرار دیا گیا اور پچھلی سب شریعتوں کو ختم کر دیا گیا۔
  • اللّٰہ تعالیٰ نے ایمان  کے مکمل ہونے  کے لئے  یہ لازم  کیا کہ  اسکے  نام کے ساتھ حضرت مُحمّدگ  کا  نام بھی لیا جائے کلمہ ”لَآ اِ لٰہَ  اِلَّااللّٰہُ“  جب تک  پورا  نہیں  ہوتا  جب تک اس میں “مُحَمَّدُ رَّسُوْلَ اللّٰہ” کی  گواہی  نہ ملائی جائے۔
  • ہمارے نبی حضرت مُحمّدگ کو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنا محبوب بنایا یہاں تک کہ تمام مخلوق  اللّٰہ تعالیٰ کی رضا  چاہتی ہے  اور  اللّٰہ تعالیٰ  حضرت مُحمّد مصطفٰیگ کی رضا  چاہتا ہے۔

خدا  کی  رضا  چاہتے  ہیں  دو عالم۔

خدا  چاہتا  ہے  رضائے مُحمّدگ ۔

  • حضرت مُحمّدگ کی خاص باتوں میں یہ بھی ہے کہ آپ کو معراج ہوئی  یعنی آپ گ اپنے  ظاہری جسم  کے ساتھ مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصٰی  اور وہاں سے ساتوں آسمانوں، کرسی  اور  عرش  تک بلکہ  عرش سے بھی اوپر  رات  کے ایک تھوڑے سے حصہ میں تشریف لے گئے  اور  اللّٰہ تعالیٰ  کا جمال  اپنی  آنکھوں سے دیکھا  اور  اللّٰہ تعالیٰ سے  بنا کسی ذریعہ کے بات کی۔
  • قیامت کے دن محشر میں آپ گ سب  سے  پہلے  شفاعت کرینگے اور آپ کو خاص مقام مقامِ محمودعطا کیا جائیگا۔
  • ہمارے نبی حضرت مُحمّد گ کی محبت اصل ایمان ہے۔  جب تک حضور کی محبت ماں،  باپ،  اولاد  اور ساری  دنیا کی دولت سے زیادہ نہ ہو آدمی مسلمان ہو ہی نہیں سکتا۔ آپکی اطاعت ہی اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔
  • آپ گ کی تعظیم فرضِ عین ہے۔ جب آپ کا ذکر آئے  تو  نامِ پاک  سنتے  ہی  درود  شریف  پڑھنا  واجب ہے۔
  • آپگ سے محبت کی پہچان یہ بھی ہے کہ آپ کے آل و  اصحاب  سے محبت  رکھی جائے  اور  اگر کسی کا باپ،  بیٹا، بھائی یا کوئی قریبی  رشتہ دار  آپ گ سے کسی طرح  کی  دشمنی یا بغض  رکھے ہو تو  اس سے بھی عداوت  اور  دوری رکھی جائے  اگر کوئی  ایسا  نہ کرے تو  وہ  آپگ  سے محبت  کے دعوے  میں جھوٹا  ہے۔  اسی لیے صحابہ کرام نے آپ گ کی محبت میں اپنے رشتہ داروں قریبی لوگوں باپ  بھائیوں اور  وطن کو چھوڑا  کیونکہ یہ  کیسے ہو سکتا  ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ  اور  اسکے رسول سے محبت بھی ہو اور انکے دشمنوں سے بھی محبت باقی  رہے۔  یہ دونوں الگ۔ الگ راستے ہیں، ایک جنت تک پہنچاتا ہے تو دوسرا جہنم تک۔
  • آپگ سے محبت کی نشانی یہ بھی ہے کہ حضور کی شان میں جو  الفاظ  استعمال کئے جائیں وہ  ادب میں ڈوبے ہوئے ہوں۔
  • اگر مدینہ شریف کی حاضری  نصیب ہو اور  روضہ مبارک کی زیارت کی دولت مل جائے تو روضہ  کے سامنے چار  ہاتھ کے  فاصلے سے  ادب  سے ہاتھ باندھ کر  کھڑے ہوکر سر جھکائے ہوئے صلٰوۃ  و سلام عرض کریں۔ بہت قریب  نہ جائیں اور نہ اِدھر ۔ اُدھر دیکھیں اور خبردار بالکل شور  نہ کرنا  کیونکہ عمر بھر کا سارا کیا دھرا  اکارت (بیکار) ہو جائیگا۔
  • آپ گ سے محبت کی نشانی  یہ بھی ہے کہ آپ کی سنتوں پر  زیادہ  سے زیادہ عمل کریں  اور کسی بھی سنت کو ہلکا نہ جانے اور آپ گ کی کسی بھی بات یا سنت کو اگر کوئی حقارت کی نظر سے دیکھے وہ کافر ہے۔

 

  • سب سے پہلے نبوّت کا مرتبہ ہمارے نبی حضرت مُحمّدگ کو ملا اور میثاق کے دن’ تمام نبیوں سے آپ گ پر ایمان لانے  اور آپکی  مدد کرنے کا  وعدہ لیا  گیا  اور  اسی شرط  پر  ان نبیوں کو یہ بڑا منصب دیا گیا۔  ‘میثاق’ کا مطلب یہ ہے کہ ایک روز  اللّٰہ تعالیٰ نے سب  روحوں کو  جمع  کرکے  یہ  پوچھا  کہ ‘‘کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟’’ تو جواب میں سب سے پہلے ہمارے نبی حضرت مُحمّد گ نے “بلٰی” یعنی کیوں نہیں کہا تھا  تو   اللّٰہ تعالیٰ  نے سب کو اور سارے نبیوں کو حضورگ  پر  ایمان  لانے  اور  انکی  مدد کرنے  کا  وعدہ  لیا  تھا۔ یہی ‘میثاق’  کا  مطلب  ہے۔

NO COMMENTS